میر کے شکار نامے: ایک جہان دیگر(ماحولیاتی تنقیدی مطالعہ)

  • ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی

چکیده

The critical discourse established in urdu on the poetry of Meer
Taqi Meer gave more impotance to his ghazal and paid less
attention to his 'Masnaviat' especially his 'Shikar nama'.This is
the reaon why Meer's concept of love and cocept of sorrow was
discused more,but concept of nature and his unique relationship
with nature remained out of sight.These poems tells the hunting
story of Nawab Asif ud dola of Luknow with whome Meer
travelled to the forests of district Behraich and Peli bhet,where
he firstly experienced the real nature very closely.so that he
presented the entire and very true picture of nature in these
poems.These poems are everfirst poetic expression of true nature
and fantastic example of wilderness writting and pastoralism in
urdu poetry.This unique style of poetry also reveals his
ecological conciousness.The article presents an ecolgical study
of these poems.

مراجع

۱۔ میر تقی میر،کلیات میر،جلداول ،لاہور:مجلس ترقی ادب،۱۹۸۶ء،ص۴۰۲
۲۔ میر تقی میر،کلیات میر،جلد دوم،لاہور:مجلس ترقی ادب،۱۹۹۱ء،ص۲۵۹
۳۔ کلیات میر(جلد ششم) مرتبہ:کلب علی خان فائق(لاہور:مجلس ترقی ادب،۱۹۸۴) میں مثنویات کی تعداد ۳۹ ہے۔جب کہ کلیات میر مرتبہ :احمد محفوظ(نئی دہلی:قومی کونسل برائے فروغ اردو،۲۰۱۳،طبع دوم) میں مثنویات کی تعداد ۳۸ بتائی گئی ہے۔مرتب کا کہنا ہے کہ ــ’’مثنوی در مادہ ء سگ‘‘ایک ذیلی عنوان ہے،الگ مثنوی نہیں ہے۔دراصل یہ ’’مثنوی در سگ و گربہ کہ در خانہ ء فقیربودند و بہم رابطہ داشتند‘‘ کا حصہ ہے۔(دیباچہ،جلد دوم،ص۱۸)متن کے مطالعے سے یہ رائے صائب معلوم ہوتی ہے۔
۴۔ ڈاکٹر جمیل جالبی،تاریخ ادب اردو،جلد دوم،لاہور:مجلس ترقی ادب(طبع ششم)،۲۰۰۹ء،ص۶۳۲
۵۔ قاضی عبدالودود،میر کے حالات زندگی مشمولہ میر شناسی:منتخب مضامین ،مرتبہ:ڈاکٹر تحسین فراقی،ڈاکٹر عزیز ابن الحسن،لاہور:نشریات،۲۰۱۱ء،ص۳۱
۶۔ میر نے لکھا ہے:
(ترجمہ)’’یہاں فقیر نواب عالی منزلت کے ساتھ ہے اور ان کی دعا گوئی میں بسر کر رہا ہے۔بندگان عالی شکار کے لیے بہڑائچ تک گئے۔مین بھی رکاب میں تھا۔ایک’’ شکار نامہ‘‘ موزوں کیا۔دوبارہ پھر شکار کے لیے سوار ہوئے اورکوہ شمالی کے دامن تک تشریف لے گئے۔اگرچہ لوگوں نے اس دور دراز سفر کے نشیب و فراز سے بڑی زحمتیں اٹھائیں مگر انھوں نے ایسی فضا،ایسی ہوا اور ایسا شکار کبھی نہ دیکھا تھا۔تین مہینے کے بعد اپنے دارالقرار(لکھنؤ) میں آئے۔فقیر نے دوسرا شکار نامہ کہہ کر حضور میںپڑھا۔‘‘
]نثار احمد فاروقی(مترجم)،میر کی آپ بیتی ،ترجمہ:ذکر میر،دہلی:انجمن ترقی اردو،ہند،۱۹۹۶ء،ص۲۰۴۔۲۰۵[
۷۔ نثار احمد فاروقی(مترجم)،میر کی آپ بیتی ،ترجمہ:ذکر میر،دہلی:انجمن ترقی اردو،ہند،۱۹۹۶ء،ص۲۰۴
۸۔ کلب علی خان فائق،مرتب:کلیات میر(جلد ششم)،لاہور:مجلس ترقی ادب،۱۹۸۴،ص۳۵۲
۹۔ میر تقی میر،کلیات میر(جلد ششم)،مرتبہ:کلب علی خان فائق،لاہور:مجلس ترقی ادب،۱۹۸۴،ص۳۱۶
۱۰۔ ایضاََ،ص۳۵۳
۱۱۔ ایضاََ،ص۲۵۹
۱۲۔ ڈاکٹر سید عبداللہ،میر اور نیرنگ عناصر مشمولہ میر شناسی:منتخب مضامین،ص۱۹۲
۱۳۔ ایضاََ،ص۱۹۵
۱۴۔ میر تقی میر،کلیات میر(جلد ششم)،ص۳۷۹
۱۵۔ ایضاََ،ص۳۳۱
۱۶۔ ایضاََ،ص۳۳۰
۱۷۔ ایضاََ،ص۳۳۶
۱۸۔ ایضاََ،ص۳۶۸
۱۹۔ شمس الرحمٰن فاروقی۔میر کا زندہ عجائب گھر مشمولہ کلیات میر،مرتبہ:احمد محفوظ،نئی دہلی:قومی کونسل برائے فروغ اردو،۲۰۱۳،(طبع دوم)،ص۶۴
۲۰۔ ڈاکٹر جمیل جالبی،تاریخ ادب اردو(جلد دوم)،لاہور:مجلس ترقی ادب،(طبع ششم)،۲۰۰۹ء،ص۶۳۷
چاپ شده
2023-12-30
نوع مقاله
Research Article