علامہ عبدالعزیز خالد کے چند مکاتیب بنام ارشد محمود ناشاد

  • ارشد محمود ناشاد
Keywords: Allama Abdul Aziz Khalid, Arshad Mahmood Nashad, literary, heritage

Abstract

An epistle is a cardinal source of research. Not only it reveals the personality, disposition, likes and dislikes, customs, habits and attitudes of the addresser and addressee but also throws light on their times and backdrop. This is the reason that the letters of literati are considered a research heritage and the students, scholars and researcher are benefitted from them in their scholarly pursuits. Keeping this aspect in view, in this article, a few unpublished letters of prominent poet and writer Allama Abdul Aziz Khalid are being presented. These letters were addressed to Arshad Mahmood Nashad, the writer of this article. Many literary and scholarly topics are discussed in these letters. In this article the writer has included brief biographicalsketch of Allama Abdul Aziz Khalid and added footnotes for a better understanding of the letters.

References

(۱) مجھے شعر گوئی کے ابتدائی زمانے میں علمِ عروض سے معمولی شُدھ بدھ کے باوجود نئے اوزان میں شعر کہنے کا شوق دامن گیرہو گیا تھا۔ میں بے سوچے سمجھے الٹے سیدھے اوزان میں شعر کہہ کر اُن کی تقطیع کرتا رہتا تھا۔شاید اس زمانے میں ’’فاعلاتن مفاعلن فعولن‘‘ میں بھی کُچھ کہا ہو ،اب یاد نہیں۔
(۲) معروف شاعر افتخار عارف کی ایک غزل جس کی ردیف ’’شام بخیر صبح بخیر‘‘میرے نزدیک ساقط الوزن تھی،خالد صاحب نے اس کی تائید کی۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ احمد ندیم قاسمی صاحب نے فنون میں یہ غزل ردیف میں کُچھ تصرف کر کے شائع کی تھی۔
(۳) یاد نہیں کہ فارسی کے کون سے اشعار خالد صاحب کی خدمت میں ارسال کیے تھے۔
(۴) یہ غزل بھی ممتاز شاعر افتخار عارف کی تھی۔اس کے بعض مقامات میرے خیال کے مطابق وزن میں نہ تھے۔ رہنمائی کے لیے رجوع کیا تھا۔افتخار عارف کی غزل کا مطلع یہ ہے:
وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے
مشکیزے سے تیر کا رشتہ بہت پُرانا ہے

(۵) خالد صاحب نے میرؔ کے شعر کی تقطیع کرتے ہوئے ’’خیال‘‘ کو بغیر اضافت کے فعول کے وزن پر قطع کیا۔ میں نے اپنے خط مکتوبہ ۳۰؍ اگست ۱۹۹۴ء میں لکھا کہ ’’ل‘‘ اضافت کے ساتھ ہے اور اس کا وزن فعولن ہونا چاہیے۔ خالد صاحب نے تائید کی۔
(۶) افتخار صاحب کی متذکرہ بالا غزل کے ایک مصرعے کی تقطیع مجھ سے نہ ہو سکی تھی،خالد صاحب سے تقطیع کی گزارش کی تھی۔ان کی تقطیع سے یہ کھلا کہ یہ مصرع ’’بحرِ میر‘‘ کے دائرے سے باہر ہے۔مصرع یہ ہے: ع وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے
(۷) میں نے ’’بہت پُرانا‘‘ کی تقطیع فَعَل فعولن‘‘ کی تھی۔
(۸) میں نے ’’چمک رہی ہے‘‘ کی تقطیع فَعَل فعولن‘‘ کی تھی۔
(۹) میں نے واو معدولہ کے متعلق یہ استفسار کیا تھا کہ اُردو میں یہ صرف ’’خ‘‘ کے بعد کیوں آتی ہے؟ جیسے خواہش، تنخواہ، خودی۔ اگر کسی قاعدے کے تحت’’خ‘‘ کے بعدہی واو معدولہ آتی ہے تو خول، خود ،خوراک وغیرہ جیسے الفاظ میں اسے ادا کیوں کرتے ہیں؟
(۱۰) معروف محقق، نقاد، استاد اور دانش ور ۔ فتح پور ہسوہ میں ۱۹۲۶ء کو پیدا ہوئے۔ کئی کتابوں کے مصنف، مرتب اور مؤلف۔ ۳؍ اگست ۲۰۱۳ء کو کراچی میں راہیِ ملکِ بقا ہوئے۔
(۱۱) اُردو ڈکشنری بورڈ کا ضخیم لغت جو بائیس جلدوں میں ہے۔ پہلی جلد ۱۹۷۷ء میں شائع ہوئی اور آخری جلد ۲۰۱۰ء میں چھپی۔یہ لغت تاریخی اصول کے تحت ترتیب دیا گیا۔بڑے بڑے ماہرینِ لسانیات اور محققین اس کی ادارت پر فائز رہے۔
(۱۲) معروف شاعر، ادیب ،مدیراور ماہرِ لسانیات ۔ پیدائش ۱۹۱۷ء دہلی، وفات: ۲۰۰۵ء ۔
(۱۳) میری پنجابی تحقیقی کتاب’’ضلع اٹک دے پنجابی شاعر‘‘ ۱۹۹۵ء میں پنجابی ادبی سنگت، اٹک نے شائع کی۔ اس کا انتساب میں نے ڈاکٹر فرمان فتح پوری اور علّامہ عبدالعزیز خالد نے نام کیا۔
(۱۴) سوال اب مجھے یاد نہیں۔ میرا خیال ہے کہ میں نے ترکیب؍ مرکبِ اضافی میں ’’ء‘‘ اور ’’زیر‘‘ کے استعمال کے بارے میں استفسار کیا تھا کہ ہمزہ کہاں استعمال ہوگا اور زیر کہاں۔کیا اس کے لیے کوئی قاعدہ مقرر ہے۔
(۱۵) یاد نہیں کہ کلام کس کا تھا۔خالد صاحب کا یہ کہنا’’ وہ بحر جس میں شاعر نے نظر بظاہر لکھنے کی کوشش کی ہے‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں کُچھ عروضی تسامحات ہوں گے۔
(۱۶) عبدالعزیز ساحر کی مرتبہ کتاب ’’غلام جیلانی برق کے خطوط‘‘میںبرق صاحب کے متعلق عبدالعزیز خالد کی ایک نظم شامل تھی،جس کے دو مصرعوں پر میں نے اعتراض کیا تھا کہ یہ وزن سے خارج ہیں۔مصرعے یہ ہیں:
٭ تَمَّت کَلِمٰت رَبِّکَ صِدْقاً وَّعَدْلا کا
٭ وَکَفَّ کَفَّہ‘عَنْ زخْرُفِ الدُّنیا
خالد صاحب نے جواباً لکھا کہ عربی الفاظ کو بہ طریقِ اشباع نظم کیا گیا ہے۔
(۱۷) اُردو کا عہد ساز ادبی رسالہ۔ لاہور سے احمد ندیم قاسمی کی ادارت میں شائع ہوتا رہا۔
(۱۸) ممتاز علمی وادبی جریدہ۔ محمد طفیل کی ادارت میں شائع ہوتا رہا۔ اس جریدے نے کئی خاص نمبر شائع کیے۔
(۱۹) فنون اور نقوش میں شائع ہونے والا یہ مضمون نظرِ ثانی کے بعد ’’کجدار ومریز‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوا۔ اس کتاب کی اشاعت کا شرف میرے حصّے میں آیا۔ میں نے سرمد اکادمی ، اٹک کے زیرِ اہتمام اسے۲۰۰۷ء میں شائع کیا۔
(۲۰) روزنامہ نوائے وقت لاہور میں عبدالعزیز خالدکا ایک کالم شائع ہوا تھا جس میں اُردو رسم الخط کی پیچیدگیوں اور ناہمواریوں کا ذکر کیا گیا تھا۔میرا استفسار یہ تھا کہ آپ اُردو کے مروجہ رسم الخط کے بجائے کسی اور رسم الخط کے حامی ہیں۔
(۲۱) میں نے اپنے خط محررہ ۶؍دسمبر ۲۰۰۳ء میں لکھا تھا:’’ آپ کے استاذِ گرامی جناب آغا صادق مرحوم ومغفور نے اپنی کتاب نکاتِ سخن (مطبوعہ لندن) میں عروض کے موجد؍ واضع کا نام ابراہیم بن خلیل لکھا ہے؛جب کہ اکثر کتبِ عروض میں خلیل بن احمد ملتا ہے۔کیا آغا صاحب سے سہو ہوا ہے یا حقیقت ہی یہ ہے؟‘‘خالد صاحب نے مروج نام ہی کو درست قرار دیا۔
(۲۲) مولوی عبدالحق نے اپنی کتاب قواعدِ اُردو میں خلیل بن احمد کی تاریخِ وفات ۱۷۰ھ تحریر کی ہے۔ خالد صاحب نے سہواً۱۲۰ھ نقل کی ہے۔خلیل بن احمد کامادۂ تاریخ وفات’’لیلِ یوم الاحد‘‘ سے نکلتا ہے۔
(۲۳) خالد صاحب کے مجموعے کفِ دریا کی ایک غزل:
اٹھتی ہے دل سے فغانِ تشنہ لبی
پیاس بدن کی بدن سے بُجھ نہ سکی
کا وزن میں مفتعلن فاعِلاتْ مفتَعِلن درست نکالا تھا مگر بحر کا نام رجز مطوی مرفوع مذال لکھا تھا،خالد صاحب نے درستی کر دی کہ بحر کا نام منسرح مطوی ؍ مذال ہے۔
(۲۴) پورا شعر یہ ہے:
تجھ کو کریں بُت بھی سجدہ بارِ خدایا!
کعبہ سا بت خانہ تو نے قبلہ بنایا
یہ شعر بھی کفِ دریا میں شامل ہے۔
(۲۵) میں نے استفسار کیا تھا کہ کفِ دریا کے علاوہ آپ کے غزل کے مجموعے کون کون سے ہیں۔ جواب میںخالد صاحب نے اپنے چار مجموعوں کے نام لکھے۔
(۲۶) میں نے پوچھا تھا :’’ کیا پنجابی آپ کے حسنِ کلام سے محروم رہی ہے؟‘‘
(۲۷) میں نے خواہش ظاہر کی تھی کہ آپ میرے میرے پی ایچ ڈی کے مقالے ’’اُردو غزل کا تکنیکی، ہیئتی اور عروضی سفر‘‘پر ایک نظر ڈال دیں ۔مصروفیات کے باعث وہ اسے نہ دیکھ سکے۔

(۲۸) ایک خاص کیفیت میں ایک رات میں نے کئی درجن رباعیات کہہ ڈالیں۔ اس سے قبل چوں کہ میں نے اس صنف میں کلام نہیں کہا تھا،اس لیے خالد صاحب کو بھجوائیں۔ انھوں نے کمال شفقت سے ان کو سراہا اور داد دی۔
(۲۹) میں نے جامعۂ پنجاب میں پی ایچ ڈی کا مقالہ بہ عنوان: ’’اردو غزل کا تکنیکی ، ہیئتی اور عروضی سفر‘‘ ۲۰۰۴ء میں جمع کرایا مگر زبانی امتحان بہت تاخیر سے اگست ۲۰۰۶ء میں ہوا۔
(۳۰) کجدار ومریز کا مسودہ جو کھٹا پھٹا اور غیر مرتب تھا، میں نے اعراب کے اہتمام کے ساتھ کمپوز کیا۔ میری کمپوزنگ کی رفتار تسلی بخش نہ تھی اور دو ایک بار خاصا کام ضائع بھی ہوا مگر میں نے ہمت ٹوٹنے نہ دی اور مختصر وقت میں اس کی کمپوزنگ کا کام مکمل کر لیا۔
(۳۱) سورۃ المؤمن کی آیت کریمہ کا ایک ٹکڑا۔ : فَسَتَذْکُرُوْنَ مِآاَقُوْلُ لَکُمْ ط وَ اُفَوِّضُ اَمْرِیْٓ اِلَی اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ بَصِیْر’‘ بِالْعِبَادِO پارہ ۲۴:آیت۴۴۔
(۳۲) عبدالعزیز خالد نے مہا بھارت کے منتخب قصّوں کا اُردو ترجمہ بہ صورتِ نثر مرتب کیا تھا۔
(۳۳) ممتاز اہلِ حدیث عالم اور دانش ور علّامہ احسان الہٰی ظہیر[پ:۱۹۴۰ء م: ۲۳؍ مارچ ۱۹۸۸ء]۔
(۳۴) لاہور سے نکلنے والا حلقۂ ادبِ اسلامی کا ترجمان علمی وادبی جریدہ۔ اس کے بانی مدیر مولانا نعیم صدیقی تھے، ان کی وفات کے بعد حفیظ الرحمان احسن مدیر مقرر ہوئے۔
(۳۵) عربی زبان وادب کے عالم اور استاد۔کئی کتابوں کے مؤلف ، مدون اور مصنف۔ [پ: ۱۸۸۸ء م: ۱۹۷۸ء]
(۳۶) میرا پی ایچ ڈی کا مقالہ بہ عنوان: ’’اُردو غزل کا تکنیکی، ہیئتی اور عروضی سفر‘‘ جناب شہزاد احمد نے مجلسِ ترقیِ ادب، لاہور سے ۲۰۰۸ء میں شائع کیا۔
(۳۷) میرے نگرانِ کار ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی۔ اقبال شناس اور ماہرِ تعلیم۔
(۳۸) میرے بزرگ دوست اور کرم فرما شکیل عثمانی صاحب نے ایک مختصر سا رسالہ’’ علامہ پرویز کا فہمِ قرآن‘‘ خالد صاحب کو بھجوانے کے لیے مجھے دیا تھا۔ اسی رسالے کی طرف اشارہ ہے۔
(۳۹) معروف عالمِ دین، علامہ غلام احمد پرویز[پ: ۱۹۰۳ء م: ۱۹۸۵ء]۔ کئی کتابوں کے مصنف اور رسالہ طلوعِ اسلام کے بانی ومدیر۔
(۴۰) ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر۔محقق، شاعر اور اردو ادبیات کے استاذ۔چئیرمین شعبہ اردو،علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی، اسلام آباد۔
Published
2022-06-30
Section
Research Article