خطباتِ اقبال : کچھ نئے مباحث

  • عزیز ابن الحسن

چکیده

This article is devoted to the new addition to research studies about great Urdu poet philosopher Allama Muhammad Iqbal. The author analyzes the book of Muhamad Suheyl Umar Khutbate Iqbal- in New Perspective. The article tries to determine the methodology of Muhamamd Iqbal's Lectures. The author views this book is a new Endeavour in "Iqbaliyat". The author concludes that the book under critical analysis presents the true essence of Iqbal's thoughts and his methodological framework used in Reconstruction of Religious thought in Islam.

مراجع

۱۔ سلیم احمد، اقبال ایک شاعر، قوسین ، لاہور،۱۹۸۷ء، ص ۳۹۔
۲۔ محمدسہیل عمر، خطباتِ اقبال--- نئے تناظر میں، اقبال اکیڈمی، پاکستان، لاہور، ۱۹۹۶ء۔
۳۔ علّامہ محمد اقبال، تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، (مترجم سیّدنذیرنیازی)، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۸۳ء۔
۴۔ خطباتِ اقبال--- نئے تناظر میں، محوّلہ بالا، ص ۱۳، ۱۴، آئندہ حوالے میں اس کتاب کو صرف نئے تناظر میں لکھا جائے گا۔
۵۔ یہ چار نکات اس صورت میں مصنّف کے متعیّن کردہ نہیں۔ راقم نے محض تفہیم و تسہیل کی خاطر کتاب کے اہم مقاصد کو ان چار نکات میں تقسیم کیا ہے۔
۶۔ ڈاکٹرسیّدظفرالحسن علی گڑھ یونیورسٹی میں صدرِ شعبۂ فلسفہ تھے۔ نومبر ۱۹۲۹ءمیں علی گڑھ میں ان خطبات کے پیش کئے جانے کے بعد، ظفرالحسن صاحب نے جو خطبۂ صدارت پیش کیا تھا وہ ان کے معروف شاگرد ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کے توسّط سے سہیل عمر کو پہنچا تھا۔ سہیل صاحب نے اسے انگریزی سے اُردو میں ترجمہ کرکے المعارف شمارۂ خصوصی ۳ کے گوشہ ”نوادر“ میں چھپوایا تھا۔ یہ خطبۂ صدارت اب زیرِبحث کتاب کے ضمیمۂ اوّل کے طور پر صفحہ ۲۲۷ پر موجود ہے۔ اس خطبے میں ”اصولِ تفریق“ اور ”اصولِ تطبیق“ کے جو دو عنوانات ہیں وہ ڈاکٹرظفرالحسن کے قائم کردہ نہیں بلکہ مترجم محمدسہیل عمر نے مدلول کی معنویت کے پیشِ نظر یہ عنوان قائم کئے ہیں۔
۷۔ ’معذرت کوشی‘ اس معنٰی میں ڈاکٹربرہان احمد فاروقی کی اصطلاح ہے۔ جن لوگوں کو فاروقی صاحب سے گفتگو کا اکثر موقع ملا ہے وہ اس بات سے ناواقف نہ ہوں گے کہ برہان صاحب دینِ اسلام اور قرآن کے فلسفۂ انقلاب کی اپنی معروف تشریحات کے دوران متکلّمین اور فلاسفۂ اسلام کی تطبیقی کوششوں کے لیے یہ اصطلاح اکثر استعمال کیا کرتے تھے۔ عجب نہیں کہ اصولِ تطبیق کی بنیادی کمزوری کے پیشِ نظر یہ اصطلاح اُنہوں نے اپنے اُستاد ڈاکٹرظفرالحسن ہی سے اَخذ کی ہو۔ملاحظہ ہوں برہان احمد فاروقی کی کتب منہاج القران، ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور، ۱۹۸۷ءاور قرآن اور مسلمانوں کے زندہ مسائل، علم و عرفان پبلشرز لاہور، ۱۹۹۹ء
۸۔ نئے تناظر میں، محوّلہ بالا، ص ۲۶
۹۔ ایضاً، ص ۲۶ تا ۲۸
۱۰۔ ایضاً، ص ۲۹ تا ۳۰
۱۱۔ ایضاً، ص ۸۴
۱۲۔ ایضاً، ص ۲۸ تا ۳۲
۱۳۔ ایضاً، ص ۱۱
۱۴۔ ایضاً، ص ۱۲، یہ تمام اقتباسات کہیں کہیں لفظی اور اکثر تلخیصی صورت میں ہیں۔
۱۵۔ یہ تمام حوالے نئے تناظر میں کے صفحات کے ہیں۔
۱۶۔ اسی طرح کے کسی نکتے کے باب میں سیّدحسین نصر نے بڑے پتے کی بات کہی ہے کہ ارسطو کی پیدائش کے ساتھ یونان میں فلسفہ ان معنوں میں ختم ہوگیا جن معنوں میں یہ اسلام میں سمجھا جاتا رہا ہے مگر ان معنوں میں اس کا آغاز ہوا جن معنوں میں یہ ۱۶-ویں صدی کے بعد یورپ میں سمجھا گیا۔
۱۷۔ نئے تناظر میں، ص ۶۷ تا ۱۶۲
18. Reconstruction of Religious Thought in Islam, Institute of Islamic culture, Lahore, 1998, p. 98
۱۹۔ تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، ص ۱۸۵۔
۲۰۔ نئے تناظر میں، ۱۴۳
۲۱۔ یہ اقتباس جو ’ ‘ کے اندر ہے نئے تناظر میں کے صفحہ ۱۶ پر ہے مگر وحید قریشی نے اس سے اپنا من پسند مفہوم پیدا کرنے کے لیے اس کے ابتدائی چند جملے چھوڑ دیئے ہیں۔ ان پر آگے متن میں بحث آتی ہے۔
۲۲۔ نئے تناظر میں، ص ۱۶
۲۳۔ ایضاً، ص ۲۲۴
۲۴۔ سہیل عمر کے اقتباس میں ”شاعری کو فاعلی جہت کا ظہور“ والے فقرے سے ڈاکٹر وحید قریشی کو یکایک سلیم احمد یاد آگئے، کیونکہ انہوں نے بھی اقبال کو ماہرینِ اقبال کے Formulated Phase میں Fix کرنے کی بجائے اپنی تخلیقی اپج کے ذریعے جاننے کی کوشش کی تھی۔ ”سلیم احمد اقبال کو بنیادی طور پر شاعر مانتے تھے:-----“ کہہ کر قریشی صاحب نے بات شروع کی اور پھر ”ہری بھری عورت کے جذبات“ اور ”خطرناک جنسی عارضے“ کا ذکر چھیڑ دیا۔ حیرت ہے کہ شبلی کی حیاتِ معاشقہ مزے لے لے کر لکھنے والا مصنّف عورت اور جنس کے ذکر پر اتنا بگڑتا ہے۔ شبلی کے حوالے سے وحیدقریشی کے قلم سے جو جملے نکلے تھے ان کا نمونہ یہ ہے: ”ان (شبلی) کی نرگسیّت ان کے دنیوی مشاغل، علمی مشاغل، شاعری اور عورتوں کے عشق، لڑکوں کے عشق سب میں کارفرما نظر آتی ہے“----- ”ان کی نرگسیّت ایک لڑکے میں اپنا بدل تلاش کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے“----- ”مولانا کی دوہری محبت بڑی مرکب سی ہے۔ ندوہ کی سرگرمیوں کے ساتھ مولانا ابوالکلام آزاد میں دلچسپی اور پھر عطیہ بیگم کے ساتھ لگاؤ “----- ”ایک طرف ان (شبلی) کے اشعار سے جنسیّت کی بُو آتی ہے تو دوسری طرف وہ عطیہ بیگم کے ساتھ جانماز کا تعلق پیدا کرنے کے خواہش مند ہیں“----- ”ان کی نرگسیّت کا سیلِ رواں----- عطیہ کے ڈوپٹے اور ابوالکلام کی دستار کو ایک لڑی میں پروتا ہے“----- اپنے اس کارنامے کی داد وحیدقریشی صاحب نے ایک دفعہ یوں چاہی کہ ”شبلی کی حیاتِ معاشقہ، میں میں نے مولانا شبلی کا فرائیڈین تجزیہ کیا تھا“، (انتظارحسین، ملاقاتیں، ص۱۹۴)۔ سوال ہے کہ انہیں کسی تنقیدی تجزئیے میں مطلقاً عورت اور جنس کے ذکر سے اختلاف ہے یا وہ صرف اقبال کے حوالے سے ایسا کرنا غلط سمجھتے ہیں؟ اگر پہلی صورت ہے تو پھر یہ گناہ ان سے بھی سرزَد ہوا ہے اور اگر دوسری صورت ہے تو پھر ان کے جواب کے بغیر بھی بات سمجھ میں آتی ہے۔----- شبلی کی حیاتِ معاشقہ اور اقبال ایک شاعر کے متعلقہ مقامات کو ایک نظر دیکھتے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ تلذّذ کا رس کس کے قلم سے ٹپکا پڑتا ہے اور ایک علمی مسئلے کے مرکزی نکتے کو حل کرنے کی کوشش کس کے ہاں کارفرما ہے۔ اتھلی تنقیدنگاری کے دَور میں جب نفسیات کی دو چار اصطلاحات لکھ دینے کا نام نفسیاتی تنقید پڑ گیا ہے۔ سلیم احمد نے اس حوالے سے تنقید کی عمدہ مثالیں پیش کی ہیں اور اپنے سب سے بڑے محبوب اقبال اور معتوب غالب پر اس اسلوب میں بہترین کتابیں تصنیف کی ہیں۔ مانا کہ اقبال کے معاملے سلیم احمد عورت اور جنس کا ذکر کرکے ایک نازک اور حسّاس مسئلے میں پھنس گئے تھے مگر شبلی کے معاملے میں امردپرستی تک کے گوشوں میں جھانکنے والے مصنّف کا اس پر برا ماننا سمجھ میں نہیں آتا۔
۲۵۔ وحید قریشی، روزنامہ پاکستان، لاہور، ۱۶ دسمبر ۱۹۹۹ء
نوع مقاله
Research Article