نئی استعمارات اور معاصر میڈیائی ثقافت: ایک علمیاتی و ادبی تناظر
Abstract
Literal sociology discusses a society in the light of literary text and likewise the literary content in the perspective of social environment. Such research paradigm has been in vogue since Platonic times. Now a days, modern media is playing a vital role in knitting the socio-cultural texture of neo-imperialistic societies like ours.It is used for injecting shoping-addiction, promoting media consumerism and managing cultural trnformation for strengthening imperialistic penetration in neo-colonised nations but at the same time it assists to abolish the imperialistic exploitation of such neo-colonies and semi colonies also.Literary texts are the index of all such socio-political factors and hence, there is a dire need to study it so that we may properly judge the new environment and act accordingly. In this article, an attempt has been made to study the virtual world of ours in the light of some literary, co-literary and religious content.
References
(۲) حامد علی خاں(مرتب):دیوانِ غالب(لاہور:الفیصل،۱۹۹۵ء)ص۱۱۷
(۳) رشید حسن خاں:گنج ہائے گراں مایہ(لاہور: اردو اکیڈمی،طبع دوم،۱۹۴۴ء)،ص۱۴۰
(۴) جارج آرویل:۱۸۸۴ء(لندن: سیکر اینڈ واربرگ،۱۹۴۹ء)
(۵) کویم کروما(Kwame Nkrumah):Neo-Clonialisn,The last Stage of Imperialism ،ص۹
(۶) شرر،عبدالحلیم:فردوسِ بریں( لاہور:سنگ میل پبلی کیشنز، س ن)ص۴۷
(۷) ہکسلے،آلڈس:Brave New World،(لندن :پینگوئن بکس،۱۹۶۳ء)،ص۷۱
(۸) ’’رس‘‘کے لفظی معنی لذت کے ہیں جب کہ سوم ایک نشہ آوررَس دینے والے درخت کا نام ہے۔ ہندوی روایات کی رو سے سوم رَس سے مراد ایسی شراب جس کا پینا داخلِ عبادت خیال کیا جاتاہے۔[ر۔ک:اردو لغت (تاریخی اصول پر)کراچی،اردو لغت بورڈ،۱۹۹۱ء،ص۱۹۱]
(۹) دیویندر اسّر: دیو ہیکل ادارے اور ذات کا بحران،مشمولہ: شب خون،الہ آباد،جلد ۲،ش۲۰، ۱۹۶۸ء ،ص۸
(۱۰) تحسین فرقی،ڈاکٹر،جستجو(لاہور:یونیورسل بکس،۱۹۸۷ء)،ص۱۴
(۱۱) غلام عباس:دھنک،مرتبہ:سجاد کامران(کراچی۶:۷۔ایچ،بلاک ۶،پی ای سی،ہاؤسنگ سوسائٹی،۱۹۶۹ء)،ص۳۷
(۱۲)ٍ دیوندر ستیارتھی:ستلج پھر بپھرا،مشمولہ،اور بنسری بجتی رہی( لاہور:انڈین اکیڈمی،۱۹۴۶ء )ص۱۲
(۱۳) کوہن،برنارڈ ایس:Colonialism and its forms of knowledge(امریکہ:پرنسٹن یونیورسٹی،۱۹۹۶ء )،ص۱۶
(۱۴) ترجمہ:’’اور اس نے آدم کو سب چیزوں کے نام سکھائے‘‘۔(القران،سورۃ :البقرۃ،آیت:۳۱)
(۱۵) ترجمہ:’’جب تمھارے پاس میری طرف سے ہدایت پہنچے تو (اس کی پیروی کرنا کہ)جنھوںنے میری طرف سے ہدایت کی
پیروی کی تو ان کو نہ کچھ خوف ہو گا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ‘‘۔(القران،سورۃ :البقرۃ،آیت:۳۸)
(۱۶) ترجمہ:’’دین خیر خواہی(کا نام)ہے۔‘‘(غلام رسول سعیدی:شرح صحیح مسلم،باب نمبر۲۲(لاہور:فرید بکسٹال،۲۰۰۲ء)،ص۴۷۲
(۱۷) سجاد میرٹھی، زین العابدین(مرتب): بیان اللسان(عربی اردو ڈکشنری)(کراچی:دارالاشارت،۱۹۷۴ء)،ص۳۹۷
(۱۸) ترجمہ حدیث:’’کہ جس نے ہمارے دین کے کسی معاملہ میں کوئی نئی چیز متعارف کرائی وہ مردود ہے۔‘‘ (محمد فواد،عبدالباقی(مرتب):المسند الصحیح المختصر بنقل العدل عن العدل الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،بیروت:دار الاحیا التراث العربی،حدیث نمبر:۱۷۱۸)
(۱۹) اس عمومی اصول کا ترجمہ یہ ہے: جمہور (یہاں اس سے مراد امام ابو حنیفہ کے علاوہ باقی علماء) کے نزدیک اشیاء میں اصل مباح ہونا ہے یہاں تک کہ اس کے حرام ہونے کی کوئی دلیل آ جائے۔
(۲۰) ہنری برگساں:Creative Evolution،مترجم،آرتھر مِلر(لندن،میکمیلن اینڈ کمپنی،۱۹۶۴ء)،ص۸
(۲۱) محمود شام:آئیے آن لائن سماج کی تیاری کریں(کالم)،مشمولہ:روز نامہ جنگ،۷/جون۲۰۲۰ء
(۲۲) راشد،ن ۔م:کلیاتِ راشد(دہلی۶،کتابی دنیا،۲۰۱۱ء)،ص۲۳۹
(۲۳) ہکسلے،آلڈس:Brave New World(لندن :پینگوئن بکس،۱۹۶۳ء)،ص۷۱
(۲۴) اس نظم کا عنوان:’’وَ یَبقیٰ وَجہُ رَبِّک‘‘ہے۔پاک و ہند کی معاصرمزاحمتی تحریکوں میں بے حد مقبول رہی کیوں کہ اس میں پرولتاری طبقے کے منشوراتی نکات بڑی جامعیت سے شعریائے گئے ہیں۔[ر۔ک:فیض احمد فیض:نسخہ ہائے وفا،لاہور:مکتبہ کارواں،،س ن، ص۶۵۷]
(۲۵) اسرارِ خودی کے اس مصرعے میں دعائے مسنون کا یہ سبق پوشیدہ ہے کہ اسے بارگاہِ ایزدی میں بھیجتے ہوئے عمل کا زادِ راہ فراہم کیاجائے تو اجابت برائے استقبال آتی ہے،یعنی عمل دعا کا لازمہ ہے۔ (اقبال،علامہ:کلیات اقبال (فارسی)،لاہور:مکتبہ دانیال،س ن،ص۴۳)
(۲۶) دیویندر اسّر: دیو ہیکل ادارے اور ذات کا بحران، ص۷
(۲۷) شمیم حنفی:اردو ادب کی موجودہ صورت حال،مشمولہ:شعر و حکمت،حیدر آباد(بھارت)،مارچ۲۰۰۱ء،ص۲۸
(۲۸) طارق ہاشمی،ڈاکٹر:دستک دیا دل(فیصل آباد: مثال پبلشرز،۲۰۱۰ء)ص۷۲
(۲۹) متعلقہ فرمان یہ ہے:’’اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہ ِاَتْقَکُمْ‘‘ جس کا ترجمہ محمد مارماڈیوک پکتھال نے اسلامی طرزِ عمل کے حوالے سے یوں کیا ہے:
"Lo the noblest of you in the sight of Allah is the best in conduct."
(القرآن،مترجم: محمد مارماڈیوک پکتھال، ،لاہور: پاک کمپنی ،سورۃ الحجرات،آیت۱۳)
(۳۰) توشی ازتسو:دینی اخلاقیات کے قرآنی مفاہیم،مترجم:ڈاکٹر خالد مسعود(لاہور:ادارہ ثقافت اسلامیہ،۲۰۰۵ء)،ص۱۱۸
(۳۱) ترجمہ:’’پس اس کی بد کاری اور پرہیز گاری دل میں ڈالی‘‘(القرآن، مترجم:احمد رضا خان (لاہور: ضیاء القرآن،سورۃ:الشمس،آیت۸)
(۳۲) پکتھال،محمد مارما ڈیوک ، مشمولہ: نظریات(اسلام آداد،جلداوّل، ش۴، ستمبر۲۰۱۳ء)،ص۶۷
(۳۳) ظلِّ عباس عباسی(مرتب)،کلیاتِ میؔر(جلد اوّل) ،(نئی دہلی:قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،طبع سوم،۲۰۱۳ء)ص۶۵۸
(۳۴) عباس،علی اصغر،روشنی کی تجارت،مشمولہ:استعارہ،شمارہ :۱،(لاہور:الحمد پبلی کیشنز،اکتوبر تا دسمبر ۲۰۱۷ء)،ص۶۹
(۳۵) ترجمہ:’’اس نے دوسمندر (شیریں اور شور)بہائے کہ دیکھنے میں معلوم ہوں ملے ہوئے۔‘‘(القرآن ،پارہ ۲۷، آیت۱۹)
(۳۶) شبلی نعمانی،سراج الدین محمد:مقالاتِ شبلی،مرتب:سید سلیمان ندوی،ج:۳(اسلام آباد:نیشنل بک فاؤنڈیشن، ۱۹۸۹ء) ، ص۱۵۸
(۳۷) لین یُو تانگ،جینے کی اہمیت،مترجم:مختار صدیقی(لاہور:مکتبہ جدید،۱۹۵۶ء)،ص۵۵۶