ژاک دریدا کامتن:”انسانی علوم کے کلامیے میں ساخت،نشان اور کھیل“: (ترجمہ اوروضاحت)

  • خرم شہزاد

الملخص

In this research article firstly the historical importance has been highlighted of Jacques Derrida's (1930-2004) text: "Structure, Sign and Play in the Discourse of the Human Sciences" after that, there is a translation and description of relative study or sub-discussions. Using references from the other books of Derrida a researchful point of view has been established. So that the description of Derrida's text will helpful for further discussions in Urdu Criticism. This text has key importance in the discussion of post structuralism. Much has been written about post structuralism in Urdu Criticism. References of this text are found in many critical works. But it had not yet standard Urdu translation. So it has been done now.

المراجع

Benoit Peeters: Derrida (A biography), Translated by Andrew Brown, Polity Press, Malden, USA, 2013, P:166

https://hub.jhu.edu/2016/03/22/hopkins-humanities-fiftieth-conference, Visited 11:10 a.m. 9 April 2021.

"I was wondering myself where I am going. So I would answer you by saying, first, that I am trying, precisely, to put myself at a point so that I do not know any longer where I am going."

(https://hub.jhu.edu/magazine/2012/fall/structuralisms-samson) Visited 11:23 a.m, 9 April, 2021.

۴۔ یہاں دریدا کی مرکز یاموجودگی کے نقطہ(Poin of Presence) سے مراد لفظ مرکزیت (Logocentrism) ہے۔اس لفظ مرکزیت کا تعلقLogosسے ہے۔لغت میں Logos کے دو معنی ہیں۔ اول: عیسائی الٰہیات کی رُو سے کلمۂ الٰہی اور دوم : فلسفے کی رُو سے وہ عقلِ اول، جو کائنات کی ساخت اور ترقی میں جاری و ساری ہے یعنی اصول ِعقلی(قومی انگریزی اردو لغت ، ڈاکٹر جمیل جالبی،۱۹۶۹ء، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، ص ۱۱۵۲) اس تعریف کی بنا پر Logos کو عیسائی الٰہیات میں خدا سے منسوب، دلیل کے قیام کا ایسا اصول قرار دیا جا سکتا ہے جس کا آغاز خدا کی طرف سے بولے ہوئے لفظ کی وجہ سے ہواتھا ۔ ژاک دریدا نے افلاطون سے لے کر اپنے عہد تک کے مغربی فلسفے کو لفظ مرکزیت (Logocentrism)کا عہد کہا ہے۔ کیونکہ اس عہد کے آغاز میں زبان کی شناخت ،لفظ مرکزیت کے تحت قائم ہوئی تھی۔ اس عہدمیں معنی آفرینی کے سلسلے میں مابعدالطبیعاتی شعور کی کارفرمائی کا آغاز ہوا تھا۔چناں چہ اس کی وجہ سے یونانی تصورِ نشان ، عیسائی الٰہیاتی نشان میں تبدیل ہو گیا۔٭

٭ (Jacques Derrida: Of Grammatology, trns. by Gayatri Chakravorty Spivak, The Johns Hopkins University Press, Baltimor & London, 1976, P.13)

اس سب کے باوجود یاد رکھنا چاہیے کہ یہاں لفظ مرکزیت ایک ایسی جامع اصطلاح ہے جس کے بہت سے ذیلی حوالے بھی ہیں۔ مطلب مصنف کی منشا (Intention)، مابعدالطبیعات کی موجودگی(Presence of Metaphysics) اور اضدادی جوڑوں (Binary Opposition) کے مابین فوقیتی ترتیب (Hierarchy) کی حامل فکر وغیرہ۔دریدا کے فلسفے کی رو سے، ان جیسے ذیلی عوامل کی مدد سے لفظ مرکزیت کا قیام عمل میں آتا ہے اور ایک ماورائی مدلول (Transcendental Signified) قائم ہوتا ہے ۔ دریدا کے مطابق یہی مدلول، انسانی سوچ میں معنی آفرینی کے سلسلوں کو محدودکرتا آیا ہے۔

(انگریزی مترجم کا نوٹ). The reference, in a restricted sense, is to the Freudian theory of neurotic symptoms and of dream interpretation in which a given symbol is understood contradictorily as both the desire to fulfill an impulse and the desire to suppress the impulse. In a general sense the reference is to Derrida’s thesis that logic and coherence themselves can only be understood contradictorily, since they presuppose the suppression of différance, “writing” in the sense of the general economy. Cf. “La pharmacie de Platon,” in La dissemination, pp. 125–26, where Derrida uses the Freudian model of dream interpretation in order to clarify the contractions embedded in philosophical coherence.

۶۔ یہاں دریدا نے جو نام گنوائے ہیں ان میں نطشے،فرائیڈاور ہائیڈگر شامل ہیں۔حالاں کہ مغرب کی فلسفیانہ تاریخ میں ان ناموں کو مابعدالطبیعات کا انہدام(Destruction) کرنے والوں کی فہرست میں شمار کیا جاتاتھا مگر دریدا کے مطابق یہ مفکرین،مذکورہ ضابطے کے حوالے سے تمام تر انہدام بخش، کوششوں کے باوجود خود اسی مابعدالطبیعاتی کلامیے (Discourse) کا اسیر ہو گئے۔کیوں کہ ان انہدام بخش کلامیوں میں حتمیت برقرار تھی اور حتمیت ،لفظ مرکزیت کا حوالہ ہے۔چناں چہ یہ کلامیے، اپنی تمام تر عریاں بیانی کی وجہ سے،خود مابعدالطبیعاتی کلامیے قرار پائے۔دریدا کے فلسفیانہ موقف کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ ایسا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ اذہان نے لفظ کی شناخت کو، بطورروایتی لفظ ہی برقرار رکھا۔چناں چہ مذکورہ کوششیں دائروی ہیں۔

۷۔ یہاں یہ واضح کیا جا رہا ہے کہ مابعدالطبیعات کا انہدام(Destruction) محض نشان(Sign) کی بدولت ممکن ہے۔ چناں چہ دریدا نشان(Sign)کا ایک نیا تصور تجویز کررہاہے اور اصرار کرتا ہے کہ جب تک لفظ کی روایتی حیثیت کو بے دخل کر کے، اس کی جگہ نشان کے نئے تصور کوقبول نہیں کیا جائے گا تب تک اس ضمن میں کوئی بھی کوشش ثمر آور نہیں ہو سکتی۔نشان کا روایتی تصور اپنے بھرپور امکان کے ساتھ ساسئیر کی دریافت قرار دیا جا سکتا ہے۔لیکن دریدا نے ساسئیر کی مذکورہ کوشش کو بھی ناکافی قرار دیا تھا۔ایک مقام٭ پروہ ساسیئر کے بارے میں لکھتا ہے کہ مغرب کی فلسفیانہ روایت ، نظریے کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی تقریر اور تحریر کے درمیان رشتوں میں جکڑی ہوئی ہے۔اس وجہ سے ساسیئر بھی اس عمل کو مکمل طور پر سمجھ نہ پایا۔

٭(Ibid, P.30)

دریداکی مذکورہ بالا رائے میں سمجھا جا سکتا ہے کہ مغربی فلسفے میں، موجودگی کی مابعد الطبیعات کو معنی آفرینی کے حوالے سے اصولی قدرکے طور پر کچھ اس طرح موضوع بنایا گیا تھا۔جس سے مغربی فلسفے کی روایت میں، تقریر اور تحریر کا رشتہ ایک جکڑ بندی بن گیا۔یعنی تحریر محض تقریر کا ضمیمہ(Supplement)قرار پائی۔اس طرح تحریر کی آزاد اور خود مختار حیثیت دب گئی۔ ساسیئر(کہ جس نے روایتی لفظ سے بڑی حد تک مختلف ،نشان کا تصور پیش کیا تھا)وہ بھی اس مسئلے کو(مکمل طور پر) نہ سمجھ پایا۔ دوسرے لفظوں میں اس نے لفظ کو دال (Signifier) کے طور پر شناخت تو کر لیا تھا لیکن اس کا تعلق مدلول(Signified) سے ہی برقرار رہنے دیا ۔ جبکہ دریدا نے (معنی آفرینی کے کھیل میں ) مدلول(Signified) کی کارفرمائی کو منہا کر دکھایا جس سے نشان کا ایک نیا تصور ابھرا۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ دریدانے اپنے مقالے میں، ساسیئر کا حوالہ دیے بغیراس کی طرف سے دریافت کردہ نشان کی بحث کو آگے بڑھایا ہے۔ چناں چہ یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اختصار کے ساتھ، نشان کے اُس تصور کو سمجھا جائے جسے دریداآگے بڑھا رہا ہے۔

ساسئیرنے نشان(Sign) کودو ضمنی حوالوں: دال (Signifier)اور مدلول(Signified)کے ساتھ دریافت کیاتھا۔ اس کے مطابق دال ، لفظ کی تحریری یا تقریری صورت ہے۔ یہ ایک ایسا صوتی پیکر (Sound Image)ہے جو(ساسیئر سے قبل) مادے یا موضوع ہی کی طرف اشارہ سمجھا جاتا تھا۔البتہ ساسیئر نے اسے صرف موضوع ہی کی طرف اشارہ نہیں رہنے دیابلکہ اسے تصور کا حوالہ بھی قرار دیا۔اس کے مطابق دال اوراس کا تصور دونوں ہی، فرق سے قائم ہوتے ہیں۔اس بات کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ نشان کی شناخت دو ضمنی حوالوں سے قائم ہوتی ہے ان میں سے پہلا حوالہ دال ہے جو (تحریر یا تقریر دونوں ہی صورتوں میں)فرق کی بنیاد پر اپنی شناخت قائم کرتا ہے اور دوسرا حوالہ اس دال کا تصور ہے۔اس کی بنیاد بھی فرق پر استوار ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر’کتاب‘ کی پہچان فقط اسی نشان(لفظ) پر منحصر نہیں ہے بلکہ اس کی شناخت کا انحصار ’گلاب‘،’حجاب‘،’نصاب‘ اور’حباب‘ وغیرہ پر بھی ہے۔پیش کردہ نشانات میں پہلے دو حروف کا فرق ہمارے اصل نشان(کتاب)کی شناخت کو قائم کرتا ہے۔جس وقت اس انداز سے یہ شناخت مکمل ہوتی ہے تب ذہن میں مذکورہ نشان کا تصور ابھرتا ہے تو اس کے قیام پر بھی اس شے کے متعلقات ا ثر انداز ہوتے ہیں۔مطلب کتاب اس لیے کتاب ہے کیوں کہ یہ کاپی،رجسٹر یاصرف صفحات نہیں ہیں۔ اس طرح نشان کے دونوں ضمنی حوالے یعنی دال اور مدلول اپنی شناخت کو فرق کی بنیاد پر قائم کرنے کے بعدبا معنی نشان بن جاتے ہیں۔یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ کلیت میں نشان کی شناخت فرق سے عبارت ہے۔نشان کی اس حیثیت کو واضح کرنے کے لیے ساسیئر لکھتا ہے:

”زبان میں صرف اختلافات ہوتے ہیں حتیٰ کہ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ عام طور پر فرق کا انحصار مثبت اصطلاحات پر ہوتا ہے۔لیکن زبان میں (چاہے ہم مدلول کی بات کریں یا دال کی) ایسے اختلافات ہوتے ہیں جو مثبت اصطلاحات سے بھی عاری رہتے ہیں۔ زبان ، لسانی نظام سے قبل خیالات رکھتی ہے اور نہ ہی اصوات، تاہم زبان کے پاس تصوراتی اور صوتیاتی اختلافات ہوتے ہیں۔جنہیں لسانی نظام جاری کرتا ہے۔“٭

٭["In language there are only differences. Even more important: a difference generally implies positive terms between which the difference is set up; but in language there are only differences without positive terms. Whether we take the signified or the signifier, language has neither ideas nor sounds that existed before the linguistic system, but only conceptual and phonic differences that have issued from the system."

(Ferdinand De Saussure: Course In General Linguestics, trns. by Wade Baskin, edited by Perry Meisel and Haun Saussy, Columbia University Press, New York, 2011, P:120)]

ساسئیر کے مذکورہ بالا نشان کے تصور کو، پس منظر کے طور پر استعمال کر کے دریدا ،اپنے مقالے میں نشان کا ایسا تصور پیش کرتا ہے جو زبان سے منسلک موجودگی کے نقطے یا مرکز کو لا مرکزیت میں بدل سکتا ہے۔دریدا کے مطابق دال(Signifier)جس وقت مدلول(Signified)میں ڈھلتا ہے عین اسی لمحے،وہ دوبارہ سے دال بن جاتا ہے اور اس طرح ایک دال سے دوسرے دال تک کا راستہ(Trace)،ایک لامتناہی راستہ بن جاتا ہے۔اپنے مقالے میں دریدا نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ فقط نشان کا یہی تصور ہے جو معنی آفرینی کے کھیل کو صحیح طور پر آزاد کھیل بنا سکتا ہے۔اسی کی وجہ سے مابعدالطبیعات کو منہدم کیا جا سکتا ہے ۔نشان کے اس نئے تصور کاعدم استعمال ہی تھا جوجدید ساخت کو بھی کلاسکی ساخت ہی کی طرح ،مرکز سے چھٹکارا نہ دلا سکا اور ساختیت برقرار رہی۔دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ لاتشکیل کو اصل مسئلہ طے شدہ مدلول یا حتمیت سے ہے خواہ اس کی بنیاد پر مابعد الطبیعات کو بے دخل ہی کیوں نہ کر دیا جائے تب بھی لاتشکیل کے لیے یہ مدلول قابلِ قبول نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ دریدا کے فلسفہ لاتشکیل (Deconstruction) کا اصرار ،مدلول کے بجائے افتراق (Diffe'rance) کی وجہ سے بدلتی ہوئی،دال کی شناخت سے ہے۔

Claude Lévi-Strauss:The Raw and the Cooked, trans. John and Doreen Wightman, Harper and Row,New York 1969,P:14.

۹۔ یہاں دریدا کا اشارہ اس فوقیتی ترتیب(Hierarchy)کی طرف ہے جسے تقریر اور تحریر کے مابین روا رکھا گیا۔گویا لیوی سٹراس نے بھی نشان کے لیے معقول اور قابلِ فہم کی شرط عائد کر کے، اس ترتیب کو برقرار رکھا۔ نتیجے کو طور پر یہاں بھی مابعدالطبیعات کی موجودگی (Presence of Metaphysics)در آئی اورنشان کا تصور روایتی ہوگیا۔دریدا کے فلسفیانہ نظام کی رو سے لفظ مرکزیت (Logocentrism)کے قیام میں تقریر اور تحریرکے درمیان فوق ترتیب (Hierarchy) کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ چناںچہ اس فوقیتی ترتیب کو توڑ کر ،یعنی تحریر کو ضمیمہ جاتی منطق سے نجات دلا کر۔دریدا نے تحریر کی سائنس کومرتب کیاتھا۔اس طرح سے اس نے موجودگی کی مابعد الطبیعات کو تحریر سے علیحدہ کیا ہے۔ ہم صراحت سے لکھ سکتے ہیں کہ اس کے نزدیک،فلسفیانہ قضیہ، مغربی فلسفے سے تعلق رکھنے والی وہ موجودگی ہے ،جو مابعد الطبیعاتی شعور کی وجہ سے ،متن کی تفہیم میں ہر ممکن حد تک معاون سمجھی جاتی تھی۔ اس مابعد الطبیعاتی شعور کی وجہ سے ہی مصنف کی موجودگی قائم ہوتی تھی اور اسی کی وجہ سے مصنف کی منشا، متن میں معنی آفرینی کے عمل کو محدود کرتی تھی۔اس مفروضے کی طرف اشارہ کرنے کے لیے وہ کہتا ہے کہ متن میں جاری رہنے والا ،معنی آفرینی کا کھیل تو افلاطون کے زمانے میں بھی جاری تھا مگر اسے خطرے کے پیشِ نظر فراموش کر دیا گیا۔ افلاطون کے متن میں ہی یونانی لفظ’ فارماکان‘ کا استعمال تحریر کی آزاد اور خود مختار حیثیت کو واضح کر رہا تھا۔ البتہ اسے موجودگی کے پیشِ نظر فراموش کر دیا گیا۔ یونانی زبان میں فارماکان (Pharmakon) متضاد معنوں کا حامل لفظ ہے۔ اس کے معنی زہر (poison) اورتریاق(remedy) دونوں کے ہیں۔لیکن افلاطون نے اپنی کتاب ”فیدرس“ (Phaedrus) میں اس لفظ کے ایک معنی ’زہر‘ پر اکتفا کیا ہے۔ کیوں کہ سقراط کی منشا کے پیشِ نظر، اس کے ایک ہی معنی مراد لیے جا سکتے تھے ۔جس پر دریدا رائے دیتا ہے کہ افلاطون کے مطابق یاداشت اور سچ کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ایسا اس لیے ہے کہ ان دونوں کا تعلق تقریر سے ہے۔ اس کے برعکس تحریر، مصنف کو موت سے ہمکنار کرتی ہے۔ ٭

٭ (Jacques Derrida: Dissemination, trns. by Barbara Johnson, The Athlone Press, London, 1981, P.105)

اس مثال سے یہ واضح کیا جا رہا ہے کہ تحریر کی آزاد اور خود مختار حیثیت کی وجہ سے مصنف کی منشا بے دخل ہوتی ہے اور تقریر کی بدولت یہ( منشا) برقراررہتی ہے ۔ چناں چہ مغربی فلسفے میں مصنف کی منشا یا موجودگی کو عزیز تر جانتے ہوئے تقریر کو تحریر پر فوقیت دی گئی۔ یہ سب کچھ مابعد الطبیعاتی شعور کی بنا پر ممکن ہو سکا تھا۔لیوی سٹراس نے بھی اسی شعور کی وجہ سے نشان کے تصور کو محدودسمجھ لیا۔

۱۰۔ یہاں دریدا نے لیوی سٹراس کی طرف سے کیے جانے والے اساطیراساس ساختیاتی مطالعات کی طرف اشارہ کیا ہے۔اس کے مطابق یہ مطالعات علم النسل(ethnology)سے عبارت ہیں۔لیوی سٹراس نے اساطیر (Mythology)پر جو کلامیہ (Discourse) مرتب کیا اس (کلامیے) کی اپنی حیثیت اساطیری ہے۔مختلف متون کی مدد سے دریدا یہ واضح کرتا ہے کہ لیوی سٹراس کا کلامیہ محض ایک مرکز سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہو سکا ہے البتہ دوسرا مرکز برقرار رہا چناں چہ اس کا کلامیہ محض ایک مرکز سے عاری ساخت(Acentric Structure) رکھتاہے۔البتہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس قسم کی خرابیوں کے باوجود لیوی سٹراس کی اساطیری کاوش کا نتیجہ یہ ضرورنکلا کہ(فقط ایک ہی سہی مگر) مرکزاپنی جگہ سے سرک ضرور گیا لیکن ساتھ ہی لفظ مرکزیت(Logocentrism) کی جگہ نسل مرکزیت(ethnocentrism) نے لے لی۔ کلاسکی ساخت میں ،مرکزکی تلاش،ساخت کے اندر اور باہر دونوں ہی جگہوں پر کی جاتی تھی۔جب کہ جدید ساخت کا تصور، جزوی طورپرلامرکزی(Decenter) تھا۔

۱۱۔ یہاں دریدا کا اشارہ اس ضمیماتی منطق کی طرف ہے جس کے مطابق رسم،آرٹ اور ثقافت وغیرہ کو فطرت کا ضمیمہ (Supplement) سمجھا جاتا تھا۔جس طرح تقریر کو تحریر پر فوقیت دی جاتی تھی اسی طرح فطرت کو ثقافت اور ثقافت سے منسلک دوسرے حوالوں پر بھی فوقیت دی جاتی تھی۔فطرت کی اس برتری کی بنا پر فطرت کو ایک ناگزیر ضرورت مان لیا گیا اور اس سے انسانی سوچ کے زاویے متاثر ہوتے آئے ہیں۔ لیکن لیوی سٹراس نے اس ضرورت کو غیر اخلاقی بات(Scandal)یا محرماتی مباشرت ِ ممنوع (Incest Prohibation)سے تعبیر کر کے گویاانسانی فکر کی ایک کجی کو واضح کیا ہے۔

Claude Lévi-Strauss:The Elementary Structures of Kinship, trans. James Bell, John von Sturmer, and Rodney Needham Beacon Press, Boston 1969, p. 8.

Ibid., p. 3.

Claude Lévi-Strauss:The Savage Mind ,London trns. George Weidenfeld and Nicolson, The University of Chicago Press, Chicago, 1966, p. 247.

Ibid., p. 17.

Claude Lévi-Strauss:The Raw and the Cooked, Plon Publications, Paris 1964, p. 2.

Ibid., pp. 5–6.

Ibid., p. 12.

Ibid. pp. 17–18.

Ibid., pp. 7–8.

(انگریزی مترجم کا نوٹ) This double sense of supplement—to supply something which is missing, or to supply something additional—is at the center of Derrida’s deconstruction of traditional linguistics in De la grammatologie. In a chapter entitled “The Violence of the Letter: From Lévi-Strauss to Rousseau” (pp. 149ff.), Derrida expands the analysis of Lévi-Strauss begun in this essay in order further to clarify the ways in which the contradictions of traditional logic “program” the most modern conceptual apparatuses of linguistics and the social sciences.

Claude Lévi-Strauss: "Introduction à l’oeuvre de Marcel Mauss," in Marcel Mauss, Sociologie et anthropologie ,P.U.F., Paris 1950, p.xlix.

Ibid., pp. xlix—l.

George Charbonnier: Entretiens avec Claude Lévi-Strauss, Plon Publications, Paris 1961.

Claude Lévi-Strauss: Race and History Unesco Publications, Paris, 1958.

Claude Lévi-Strauss:“Introduction à l’oeuvre de Marcel Mauss,” in Marcel Mauss, Sociologie et anthropologie ,P.U.F., Paris 1950, p.xlvi.

(یہاں دریدا کا اشارہ لیوی سٹراس کی کتاب کی طرف ہے): Tristes Tropiques, trans. John Russell, Hutchinson and Co., London, 1961.

منشور
2021-06-30
القسم
Research Article