پروفیسر محمد اقبال مجددی کے چند غیر مطبوعہ خطوط بنام ارشد محمود ناشاد

  • ارشد محمود ناشاد
Keywords: Prof. Iqbal Mujaddadi, Letter Writing, Basic Source of Research, Arshad Mahmood Nashad, Lahore, Nqashbandi Order, Footnotes.

Abstract

An epistle is a cardinal source of research. Not only it reveals the personality, disposition, likes and dislikes, customs, habits and attitudes of the addresser and addressee but also throws light on their times and backdrop. This is the reason that the letters of literati are considered a research heritage and the students, scholars and researcher are benefitted from them in their scholarly pursuits. Keeping this aspect in view, in this article, a few unpublished letters of prominent researcher and Scholar Prof. Iqbal Mujaddadi are being presented. Many literary and scholarly topics are discussed in these letters and we come to know about the personal and literary point of view of a great researcher. The writer has included brief biographical sketch of Muhammad Iqbal Mujaddadi and added footnotes for a better understanding of these letters.

References

۱۔ راقم الحروف کے نو تحقیقی مضامین اور پانچ تبصروں کا مجموعہ جو ۲۰۱۲ء میں الفتح پبلی کیشنز، راول پنڈی سے شائع ہوا۔اس مجموعۂ مضامین کاپیش لفظ ڈاکٹر گوہر نوشاہی نے لکھا۔
۲۔ مولانا محمد حسین آزاد کی ایک ناتمام تصنیف جو پہلی بار ان کے پوتے آغا محمد طاہر نے ۱۹۲۲ء میں شائع کی۔ تذکرۂ علما کمی کم یابی کے باعث راقم نے مولانا آزاد کی سو سالہ برسی کے موقعے پر اسے تدوین کے لیے منتخب کیا۔یہ کتاب ۲۰۱۱ء میں الفتح پبلی کیشنز، راول پنڈی نے شائع کی۔ اس کاپیش لفظ معروف محقق اور استاد ڈاکٹر معین الدین عقیل نے تحریر فرمایا۔
۳۔ معروف محقق، مؤرخ اور ماہرِ تعلیم۔ ڈاکٹر محمد ایوب قادری ۱۹۲۶ء میں اونالا(اتر پردیش) میں پیدا ہوئے۔پاکستان کے قیام کے بعد کراچی میں مستقل سکونت اختیار کی۔ پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی اور پھر وفاقی اردو کالج میں بہ طور استاد ملازمت کی۔ اردو نثر کے ارتقا میں علما کا حصہ کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا۔ کئی کتابیں تصنیف اور ترجمہ کیں۔ ۱۹۸۳ء میں کراچی میں انتقال کیا۔
۴۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے نام ڈاکٹر گیان چند کے تیس مکاتیب کا مجموعہ ،جس کی ترتیب وتہذیب اور حواشی وتعلیقات کا کام راقم الحروف نے انجام دیا۔ گیان نامے اگست ۲۰۱۳ء میں سرمد اکادمی، اٹک سے شائع ہوئی۔
۵۔ اردو کے معروف محقق، نقاد،ماہرِ لسانیات اور استاد۔ ڈاکٹر گیان چند ۱۹۲۳ء کو سیوہارہ ضلع بجنور میں پیدا ہوئے۔۱۹۴۸ء میں الہ آباد یونیورسٹی سے اردو کی نثری داستانیں کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ان کی تصانیف وتالیفات کی تعداد دو درجن سے زائد ہے۔زندگی کے آخری دور میں ایک بھاشا: دو لکھاوٹ،دو ادب نامی ایک متنازع کتاب لکھی۔ ۲۱؍ اگست ۲۰۰۷ء کو امریکا کے ایک اولڈ ہوم میں وفات پائی۔
۶۔ معروف محقق، ماہرِ اقبالیات اور اردو ادبیات کے استاد۔ ۱۹۴۰ء کومصریال ضلع اٹک(حال: چکوال) میں پیدا ہوئے۔ جامعۂ پنجاب سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ گورنمنٹ کے مختلف کالجوں میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔بعد ازاں اورینٹل کالج میں استاد اور صدرِ شعبہ رہے۔تحقیقی مجلہ بازیافت کے بانی مدیر اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔علمی وادبی اداروں اور حکومتِ پاکستان نے انھیں کئی اعزازات وانعامات سے نوازا۔آج کل لاہور میں سکونت پذیر ہیں۔
۷۔ معروف محقق اور مصنف۔ خورشید احمد خاں یوسفی ۸؍ اگست ۱۹۲۸ء کو گورداس پور (بھارت) میں پیدا ہوئے اور ۲۰؍ فروری ۱۹۹۷ء کو لاہور میں راہیِ ملکِ بقا ہوئے۔ ان کی معروف تحقیقی کتابوں میں قائد اعظم کے شب وروز، قدیم شعرائے اُردواور حدائق الحنفیہ(ترتیب وحواشی) شامل ہیں۔
۸۔ اُردو تحقیق کے معلمِ اوّل۔حافظ محمود شیرانی۵؍ اکتوبر ۱۸۸۰ء کو ٹونک میں پیدا ہوئے۔تحقیق کی اعلا تعلیم لندن سے حاصل کی۔واپس آ کر اورینٹل کالج میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔ تنقیدِ شعر العجم، پرتھی راج راسا، مجموعۂ نغز، خالق باری اور پنجاب میں اُردو ان کی تحقیقی و تدوینی کارنامے ہیں۔ان کے پوتے ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی نے دس جلدوں میںان کے گراں قدر مقالات مرتب کیے،جو مجلسِ ترقیِ ادب، لاہور سے شائع ہوئے۔ حافظ صاحب نے۱۶؍ فروری ۱۹۴۶ء میں لاہور میں انتقال کیا۔
۹۔ حافظ محمود خاں شیرانی کے فرزندِ ارجمند،شاعرِ رومان کے لقب سے معروف ہیں۔ اختر شیرانی کا اصل نام محمد داؤد خاں تھا۔۴؍ مئی ۱۹۰۵ء کو ٹونک میں پیدا ہوئے۔والد کی خواہش کے باوجود تعلیمی سلسلہ جاری نہ رکھ سکے۔ کئی رسائل جیسے: خیالستان، ہمایوں، سہیلی، انقلاب، رومان اور شاہکار کی ادارت سے وابستہ رہے۔کئی شعری مجموعے ان کی یادگار ہیں۔ کثرتِ شراب نوشی کے باعث تینتالیس سال کی عمر میں ۹؍ ستمبر ۱۹۴۸ء کو لاہور میں فوت ہوئے۔
۱۰۔ معروف محقق، خاکہ نگار اور فارسی ادبیات کے استاد۔ حافظ محمود شیرانی کے پوتے اور اختر شیرانی کے بیٹے ہیں۔مظہر محمود شیرانی۹؍ ستمبر ۱۹۳۵ء کو ناگور میں پیدا ہوئے۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد مختلف کالجوں میں فارسی ادبیات کی تدریس سے وابستہ رہے۔ ڈاکٹر وحید قریشی کی نگرانی میں حافظ محمود شیرانی کی حیات وخدمات پر وقیع مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ تحقیقی کارناموں کے ساتھ ساتھ خاکوں کے کئی مجموعے بھی ان کی یادگار ہیں۔۱۳؍ جون ۲۰۲۰ء کو راہیِ ملکِ بقا ہوئے۔
۱۱۔ مجھ سے سہو ہوا کہ خورشید احمد خاں یوسفی کو حافظ صاحب کا داماد لکھ دیا،وہ اختر شیرانی کے داماد تھے۔ پروفیسر محمد اقبال مجددی کی نشان دہی پر باقی نسخوں میں تبدیلی کر لی گئی۔
۱۲۔ نذر صابری نے اپنے مرشد گرامی مولانا نواب الدین رام داسی ستکوہی کے ملفوظات اور تبلیغی اسفار کی یادداشتوں کو آفتابِ شوالک کے عنوان سے مرتب کیا۔ یہ کتاب چار حصوں پر مشتمل ہے۔ تین حصّے قبلہ نذر صابری کی زندگی میں شائع ہوئے،چوتھے حصّے کی اشاعت ان کی وفات کے بعد راقم الحروف کے حصّے میں آئی۔چوتھا حصہ جس کے راوی خود نذر صابری ہیں، شیخ کی مجالس اور تقاریر کے احوال پر مشتمل ہے۔ آفتابِ شوالک کا چوتھا حصہ جنوری ۲۰۱۴ء میں ادارۂ فروغِ تجلیاتِ صابریہ، اٹک سے شائع ہوا۔
۱۳۔ استاذِ محترم نذر صابری کا فارسی کلام راقم نے بادۂ ناخوردہ کے نام سے مرتب کیا۔اس کا پیش لفظ ڈاکٹر معین نظامی نے تحریر کیا۔یہ مجموعۂ اشعارِ فارسی پہلی بار ۲۰۱۵ء میں سرمد اکادمی، اٹک کے زیرِ اہتمام منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوا۔
۱۴۔ معروف محقق، مخطوطہ شناس، شاعر اور گورنمنٹ کالج اٹک کے سابق کتاب دار۔ اصل نام غلام محمد تھا۔وطن جالندھر ہے مگرپیدائش ۱۹۲۳ء میں ملتان میں ہوئی۔ تقسیمِ ہند کے بعد لاہور اور پھر اٹک آ گئے اور پھر زندگی بھر اسی شہر کے ہو کر رہے۔ کئی کتابوں کے مرتب اور مؤلف ہیں۔ واماندگیِ شوق کے نام سے نعتیہ مجموعہ شائع ہوا۔۱۱؍ دسمبر ۲۰۱۳ء کو واصل بحق ہوئے۔
۱۵۔ پروفیسرمحمداقبال مجددی نے کتب خانہ مولانا محمد علی مکھڈی کے چند اہم خطی نسخوں کی زیارت اور استفادے کے لیے ۱۰؍ اگست ۱۹۸۱ء کو نذر صابری کی معیت میں مکھڈ شریف ضلع اٹک کا سفر کیا۔ مزید دیکھیے: مکاتیبِ ہم نفساں: ص۲۶۶۔
۱۶۔ پروفیسر محمد اقبال مجددی کے ذخیرۂ کتب کی فہرست خود انھوں نے فہرستِ مخطوطات ومصورات کے عنوان سے مرتب کی جس کی نظرِ ثانی سید جمیل احمد رضوی نے کی۔یہ فہرست دانشگاۂ پنجاب ،لاہور نے ۲۰۲۰ء میں شائع کی۔
۱۷۔ راقم الحروف کی ایک مختصر مثنوی جس میں کتاب کے عروج وزوال کی کہانی کو کتاب کی زبانی پیش کیا گیا ہے۔مثنوی کا مقصدِ وحید کتاب کلچر کا احیا ہے۔کتاب نامہ کا پہلا مصور ایڈیشن بہار، ۲۰۱۶ء میں سرمد اکادمی، اٹک کے زیرِ اہتمام شائع ہوا۔بعد ازاں اگست،۲۰۱۸ء میں اس کا عوامی ایڈیشن شائع ہوا۔ کتاب نامہ کا مختلف قومی اور بین الاقوامی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔
۱۸۔ ڈاکٹر شاہد صدیقی،وائس چانسلر کے اصرار اور ایما پر علّامہ اقبال اوپن یونیورسٹی،اسلام آباد سے ایک شش ماہی تخلیقی جریدے کا آغاز ہوا۔ اس جریدے کی ادارت راقم کے سپرد تھی۔ افسوس ثبات کے صرف دو شمارے شائع ہو سکے۔
۱۹۔ مخطوطہ شناس، محقق، کتاب دار اور فارسی کے عالم نذر صابری کے نام مشاہیر کے مکاتیب کا مجموعہ جس کی تدوین وتحشیہ کا کام راقم الحروف نے انجام دیا۔ یہ مجموعۂ مکاتیب دسمبر،۲۰۲۰ء میں سرمد اکادمی، اٹک کے زیرِ اہتمام شائع ہوا۔مکاتیبِ ہم نفساں میں ۳۶ مکتوب نگاروں کے ۱۷۳ مکاتیب شامل ہیں۔
۲۰۔ پشتو زبان کے نام ور افغانی محقق اور عالم۔عبدالحئی حبیبی نے پشتو زبان وادب کی تحقیق میں غیر معمولی کارنامے انجام دیے۔ پشتو کے اولین تذکرے تذکرہ الاولیا تالیف سلیمان ماکو کے سات صفحات کی دریافت ان کا اہم کارنامہ ہے۔محمد ہوتک ابن داؤد کے پٹہ خزانہ کا کامل نسخہ بھی ان کے مقدمے کے ساتھ کابل سے شائع ہوا۔ پشتو شعرا کا تذکرہ اور پشتو ادب کی تاریخ بھی علامہ عبدالحئی حبیبی کے شعرہ آفاق تحقیقی کارنامے ہیں۔
۲۱۔ معروف عالم، استاذ اور محقق۔۱۸۸۳ء کو قصور میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۱۹ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے عربی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اورینٹل کالج، لاہور میں عربی کے پروفیسر اورپرنسپل رہے۔ سبک دوشی کے بعد اردو دائرۂ معارفِ اسلامیہ کے پہلے صدر مقرر ہوئے۔۱۴؍ مارچ ۱۹۶۳ء کو لاہور میں انتقال کیا۔کئی علمی اور تحقیقی کارنامے ان کی یادگار ہیں۔
۲۲۔ ڈاکٹر محمد شفیع کے لائق اور صاحبِ علم فرزند۔ انھوں نے پانچ جلدوں میں اپنے عظیم والد کے مقالات مرتب کیے،جو مجلسِ ترقیِ ادب، لاہور سے شائع ہوئے۔
۲۳۔ راقم الحروف کے بارہ تحقیقی مضامین کا مجموعہ۔آثارِ تحقیق جون ۲۰۲۱ء کو رنگِ ادب پبلی کیشنز، کراچی نے شائع کی۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری، ڈاکٹر معین الدین عقیل، ڈاکٹر رؤف پاریکھ اور ڈاکٹر نجیبہ عارف کی آرا مجموعۂ مضامین میں شامل ہیں۔
۲۴۔ معروف محقق، ماہرِ لسانیات اور عربی زبان کے استاد۔ڈاکٹرعبدالستار صدیقی ۲۶؍ دسمبر ۱۸۸۵ء کو اتر پردیش کے ضلع ہردوئی کے ایک گاؤں سندیلہ میں پیدا ہوئے۔علی گڑھ اور الہ آباد کی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے لیے وظیفہ یاب ہو کر جرمنی چلے گئے،جہاں لسانیات کے نامی گرامی اساتذہ سے کسبِ فیض کیا۔ واپس آکر مسلم یونیورسٹی،عثمانیہ یونیورسٹی، ڈھاکا یونیورسٹی اور الہ آباد یونیورسٹی میں عربی،اسلامیات اور فارسی کے شعبوں میں استاد اور سربراہ رہے۔دو جلدوں میں ان کے گراں قدر مقالات مجلسِ ترقیِ ادب،لاہور سے شائع ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالستار صدیقی ۲۸؍ جولائی ۱۹۷۲ء میں الہ آباد میں فوت ہوئے۔
۲۵۔ بھارت کا معروف قومی کتب خانہ۔اس کتب خانے کے بنیاد گزارخان بہادر مولوی خدا بخش خاں ہیں۔انھوں نے چار ہزار کتابوں سے ۱۸۹۱ء میں اس ذاتی کتب خانے کو عوام کے لیے کھولا۔ بعد ازاں اسے قومی تحویل میں لے لیا گیا۔ اب اس کتب خانے کا اہتمام و انصرام وزارتِ ثقافت، حکومتِ ہند کے سپرد ہے۔خدا بخش اورینٹل لائبریری اپنے قیمتی اور نادر عربی، فارسی، اُردو ، پنجابی، پشتو اور ترکی مخطوطات کی وجہ سے پورے عالم میں معروف ہے۔مطبوعہ کتابوں کی تعداد بیس لاکھ سے زائد ہے۔
۲۶۔ خدا بخش لائبریری ،پٹنہ کے زیرِ اہتمام’’ ترقیمے، مہریں،عرض دیدے‘‘کے عنوان سے تین روزہ سیمی نار ۲۸ تا ۳۰ستمبر ۱۹۹۴ء منعقد ہوا۔بعد ازاں عابد رضا بیدار نے سیمی نار میں پیش کردہ مقالات کو کتابی صورت میں مرتب کیا۔ ترقیمے، مہریں ،عرض دیدے پہلی بار ۱۹۹۸ء میں خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری،پٹنہ کے اہتمام سے شائع ہوئی۔
Published
2022-12-31
Section
Research Article