فتوی میں جدید طبی تحقیقات کے اثرات: ایک تجزیاتی مطالعہ
Impacts of Modern Medical Research in Fatwa: An Analytical Study
Abstract
فتوی کے معنی کسی بھی شرعی حکم کو واضح کرنےہیں۔ فتوی دینے کا منصب ہر کسی کو حاصل نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے اہلیت شرط ہے اور اہلیت میں جہاں دیگر شرائط شامل ہیں، وہاں یہ بھی شرط ہے کہ فتوی دینے والے کو ”فقہ الواقع“ کا فہم حاصل ہو۔ فقہ الواقع کا مطلب یہ ہے کہ مفتی کو اپنے دور کےتغیرات، ایجادات، تحقیقات، حالات اور عرف ورواج کا علم ہو، اور کسی بھی صورتحال کی حقیقت کا فہم اسے حاصل ہو،کیونکہ کئی شرعی مسائل ایسے ہوتے ہیں جو کسی خاص صورتحال یا عرف یا تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں اور اس صورتحال یا عرف یا تحقیق کے تبدیل ہونے سے ان مسائل کا شرعی حکم بھی بدل سکتا ہے اور شرعی حکم کے لیے واقعہ کی حقیقی صورتحال جاننا ضروری ہوتا ہے۔۔
زمانہ قدیم سے اہلِ علم اور فقہاء شرعی مسائل بتاتے ہوئے دیگر عوامل کی طرح بسا اوقات طبی رائے کو بھی بنیاد بناتے آئے ہیں ، چونکہ عصرِ حاضر میں طب کی دنیا میں نئی تحقیقات سامنے آرہی ہیں، ایسی ایجادات ہورہی ہیں جن کا سابقہ ادوار میں تصور بھی ناممکن تھا، اس لیے جن مسائل کی بنیاد طبی تحقیق یا رائے ہوتی ہے، ان پر اگر غور کیا جائے تو جدید طبی تحقیقات کی وجہ سےان پر مختلف اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ یہ اثرات مختلف ہوتے ہیں، جن سے قدیم رائے کو مزید تقویت بھی مل سکتی ہے، کسی رائے کی تعلیل میں فرق پیش آسکتا ہے، کسی قدیم رائے میں تبدیلی بھی ہوسکتی ہے اور جن جدید مسائل میں قدیم فقہاء کی کوئی رائے موجود نہیں ہے، ان میں شرعی حکم کے لیے راہنمائی بھی مل سکتی ہے۔اس سے موضوع کی اہمیت کا علم ہوجاتا ہے۔
زیرِ نظر مقالہ میں پہلے اس نکتہ پر غور کیا جائےگا کہ کیا فتوی میں طبی ماہرین کی رائے پر اعتماد کیا جاسکتا ہے؟ اس کے بعدیہ تحقیق پیش کی جائےگی کہ جدید طبی تحقیقات کس حد تک فتوی میں اثرانداز ہوتی ہیں اور اس کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں؟
It is a condition of publication in this journal that authors assign copyright or license publication rights of their articles to the Islamic Research Institute, International Islamic University, Islamabad. This enables IRI to ensure full copyright protection and to disseminate the article, and of course the journal, to the widest possible readership in print and electronic formats as appropriate. Furthermore, the authors are required to secure permission if they want to reproduce any figure, table, or extract from the text of another source. This applies to direct reproduction as well as "derivative reproduction" (where you have created a new figure or table which derives substantially from a copyrighted source).
”فکرونظر“ میں شائع ہونے والی نگارشات کا حق اشاعت
”فکرونظر“ میں مقالے کی اشاعت سے پہلے مقالہ نگار کو اپنی نگارشات کا حق اشاعت ادارہ تحقیقات اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آبا د کو تفویض کرنا ہوگا۔ یہ عمل ادارے کے لیے نہ صرف کاپی رائٹ حقوق کی حفاظت یقینی بناتا ہے بلکہ اس کے ذریعے ادارے کے لیے مقالات اور مجلے کی اشاعت، پرنٹ اور الیکٹرانک ہر دو صورتوں میں، زیادہ سے زیادہ قارئین تک ممکن ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں، مقالہ نگاران اگر کسی دوسرے مصدر/ مرجع سے کوئی جدول، خاکہ یا اقتباس نقل کر رہے ہیں تو اس کی پیشگی اجازت حاصل کرنا ضروری ہوگا۔ اس کا اطلاق بلاواسطہ یا بالواسطہ ہر دو قسم کی نقل پر ہوگا۔
Attribution-NonCommercial 4.0 International (CC BY-NC 4.0)